واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی

رحمتہ اللہ علیہ

 

  آپ کی ولادت با سعادت ۸۶۱ ہجری میں رودلی انڈیا میں ہوئی۔ آپ کا  اسم گرامی شیخ عبدالقدوس اور آپ کے والد کا نام شیخ اسماعیل ہے۔آپ اپنی تعلیم زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکےکیونکہ آپ کو ظاہر ی تعلیم اور شغل سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔آپ باطنی علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ایک دن اچانک عبدالقدوس کے سینے میں نہ جانے کیسی آگ بھڑکی  کہ آپ پر جذب کی کفیت طاری ہو گئی ۔وجد کے عالم میں اپنے کپڑے چاک کر ڈالے اور نعرے مارتے باہر نکل گئے۔اس وقت آپ کے والد انتقال کر چکے تھے ۔جب آپ کی والدہ محترمہ نے جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی یہ حالت دیکھی تو سخت پریشان ہوئی اور اپنے بھائی قاضی دانیال کے پاس گئی جو شہر کے حاکم تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی والدہ محترمہ نے ساری صورتحال اپنے بھائی کو بتائی تو آپ کے بھائی قاضی دانیال نے کارندوں کو بھیج کر بھانجے کو بلوالیا۔ آپ کے بھائی نے حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ   کو اپنے پاس بٹھا کر نرمی سے پوچھا قدوس یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ماں کو کیوں تنگ کرتے ہو اور تعلیم کیوں چھوڑ دی ہے یاد رکھو اگر تم نے یہی حال بنائے رکھا تو ہم تجھ کو سخت سزا دیں گے۔

حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے یہ سن کر چلا چلا کر کہنا شروع کیا کہ ہم سزا لیں گے ہمیں سخت سزا دو۔ اس دوران کہیں سے گیت کی آواز آئی۔ گیت کا عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  کے کانوں میں پڑنا تھا کہ وجد میں آگئے اور حالت غیر ہوگئی۔ ماموں نے بھانجے کا جو یہ حال دیکھا تو دکھ سے بہن سے کہا کہ پریشان نہ ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہ قیس بن چکا ہے صحرا ہی اس کے مرض کا واحد علاج ہے اسے کچھ نہ کہو۔

اب تو حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کو جیسے کھلی چھٹی مل چکی تھی۔ سارا وقت مجذوبوں اور قلندروں کی صحبت میں رہتے مگر کسی پل قرار نہ تھا۔ سینے میں جو آگ بھڑکی تھی وہ کسی طور پر بجھنے کا نام نہ لے رہی تھی۔ وہ بے خود ہوکر کبھی کدھر نکل جاتے تو کبھی کدھر نکل جاتے۔ کبھی دل کی تپش بڑھنے لگتی تو ویرانوں میں نکل جاتے۔ کبھی مختلف بزرگان دین کے مقبروں پر حاضری دیتے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  زیادہ تر شیخ عبدالحق  رحمتہ اللہ علیہ  کے مقبرے پر وقت گزارتے۔ روزانہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار پر جھاڑو دیتے تھے۔

شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  کی درگاہ کے سجادہ نشین شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  نوجوان تھے اور حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کے ہم عمر بھی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو ان سے محبت تو تھی لیکن وہ عقیدت نہ تھی جو کسی مرید کو مرشد سے ہوتی ہے۔ ایک دن حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  حضرت عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  کے مقبرے پر عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک حضرت عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  نمودار ہوئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا ہاتھ تھام کر اپنے پوتے شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  کے پاس لے گئے اور اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے حضرت شیخ محمد کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیا اور انکساری کے انداز میں کہا کہ اے شیخ مجھے تھام لیجیے۔

حضرت شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  نے مرشد ہونے کے باوجود آپ رحمتہ اللہ علیہ  سے مریدوں والا برتاؤ نہ کیا بلکہ عزت واحترام سے پیش آتے اور ہم رتبہ رفیق کی طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے ساتھ عبادت و ریاضت کرتے۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے بھی اپنی مریدی کے ابتدائی دور میں سخت مجاہدے کیے ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ  ہمیشہ حضرت شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار پر خود جھاڑو دیتے، پانی بھر کر لاتے اور جھاڑ پونجھ کرتے۔

حضرت شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  کی بڑی بہن ایک صالح خاتون تھی لیکن قسمت کی ستم ظریفی سے ایسے شخص سے بیاہی گئی جو ہرگز آپ کے قابل نہ تھا۔ آپ جتنی پاک باز اور عبادت گزار تھیں وہ  شخص اتنا ہی کینہ پرور اور بداعمال تھا۔ چناچہ ان کی زندگی جہنم کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ حضرت شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  اور ان کی والدہ ام کلثوم بیٹی کی حالت دیکھتی تو ان کو بڑا دکھ ہوتا تھا۔ ان کی ایک چھوٹی بیٹی بھی تھی جن کے بارے میں وہ سابقہ تجربے کی روشنی میں سخت پریشان تھی۔

حضرت شیخ محمد  رحمتہ اللہ علیہ  کی والدہ ام کلثوم نے ایک رات خواب دیکھا کہ  ان کے بیٹے شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  کا مرید حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  وجد کی حالت میں سماع میں ہے اور اس کا ایک پاؤں بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ ابھی وہ اس پر غور کررہی تھیں کہ اچانک خواب میں حضرت عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ  نمودار ہوئے اور کہا اس بچے کو اپنے سائے میں لے لو۔ یہ معصوم اور شریف اللہ کا اور میرا پیاراہے۔

جس دن سے  آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی والدہ نے یہ خواب دیکھا تھا تب سے بے چین تھیں کہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  سے کیسے بات کی جائے۔ پھر رب العظیم نے ایک دن ان کی یہ مشکل بھی حل کردی۔ گھر کی ایک کنیز جب حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  سے کپڑے لینے گئی تو اس کے دل میں شرارت سوجھی بولی حضرت اب تو آپ جیسے جوان شادی کرکے باپ بنے پھرتے ہیں آپ کا کیا ارادہ ہے۔ کیا ساری عمر ایسے ہی گزار دو گے۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کنیز کی یہ بات سن کر مسکرائے اور بولے بی بی تم جانتی ہو بھلا مجھ جیسے شب وروز گزارنے والے درویش کو اپنی بیٹی کون دے گا۔ اور پھر بھلا میں اپنی آزاد زندگی کو کیوں کھودوں۔ لیکن کنیز کہاں چھوڑنے والی تھی کہنے لگی  میں تو کہتی ہوں کہ آپ اپنے پیر شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  کی چھوٹی بہن سے عقد کرلیں دونوں کی جوڑی خوب اچھی رہے گی۔

یہ بات حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کے دل کو لگی اور ان کے دل میں شادی کی خواہش پیدا ہوگئی۔ اور اس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک مربی کے ساتھ کیا جو ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آج ہی آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی طرف سے شادی کا پیغام لے کر جاتا ہوں ۔ جب وہ شادی کا پیغام لے کر گئے تو والدہ نے جھٹ پٹ پیغام منظور کرلیا۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی شادی حضرت شیخ محمد رحمتہ اللہ علیہ  کی بہن سے کردی گئی۔

سکندر لودھی  کا زمانہ تھا  اور  مشہور بزرگ  شیخ حسام الدین  رحمتہ اللہ علیہ  شبعہ احتساب کے سربراہ بنا دئیے ۔آپ کے ذمہ دین میں داخل بدعات کا خاتمہ  کرنا تھا ۔آپ نے گجرات، دکن  اور مالوے  کے کامیاب دورے کئے  اور بدعات کا خاتمہ کیا۔اس کے بعدجب آپ نے پانی پت میں بدعات کے خاتمے کےلیے پہنچے تو وہاں حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کے بارے میں سنا کہ وہ خود کو قطب الاقطاب کہلاتے ہیں اور غیر شرعی کاموں میں ملوث ہیں ۔چنانچہ آپ نے حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کو پیغام بھجوایا کہ شریعت رسول کی پابندی کریں اور وجد و سرور کی حالتوں  سے دور رہیں۔ حضرت عبد القدوس  گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے خندہ پیشانی سے پیغام بھجوایا کہ احکا م شرعی سے رد گردانی  کسی طور پر بھی مناسب نہیں ۔ہم اللہ کے حضور توبہ کرتے ہیں  اور آئندہ بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔

حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  اس بعد واقعی چند دن  سماع سے دور رہے۔لوگ سمجھ رہے تھے کہ آپ  محتسب اعلٰی سے خائف ہو چکے ہیں اس لیے سماع کے نزدیک نہیں جاتے۔ابھی سماع سے دور ہوئے چند ہی دن گذرے تھے کہ ایک رات  جب آپ تہجد کے لیے اٹھے تو آپ کے کانوں میں کسی عورت کے دوہے گانے کی آواز  آئی ۔اس کے درد بھرے بول سنے تو اسی وقت وجد میں آ گئے اور دیوانہ وار رقص کرنے لگے۔جب ذرا ہوش میں آئے تو شیخ حسام الدین رحمتہ اللہ علیہ  کو کہلا بھیجا کہ میں ایک آتش زدہ لکڑی کی مانند ہو چکا ہوں  اور آپ جانتے ہیں کہ آتش زدہ لکڑی سےنہ تو  جنگل کی خشک لکڑی بچ سکتی ہے اور نہ کوئی چیز۔جوکوئی چیز اس کی گرفت میں آتی ہے اس کو جلا ڈالتی ہے۔آپ میری یہ کفیت دور کر سکتے ہیں تو تشریف لائیں میں آپ کا احسان مند ہوں گا۔

یہ پیغام سن کر شیخ حسام الدین   رحمتہ اللہ علیہ  نے چند بزرگوں کو ہمراہ لیا اور ہاتھ میں درا لے کر  آپ کی خانقاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔جب آپ وہاں پہنچے تو حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  دیوانہ وار  رقص  کر رہے تھے ۔آپ کو دیکھتے ہی دفعتاً  شیخ حسام الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی حالت میں ایک تغیر رونما ہوا    ، اپنی دستار اتار پھینکی اور نعرہ بلند کرتے ہوئے  حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ   کے گرد پروانے کی طرح گھومنے لگے۔جب ذرا ہوش میں آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت آپ کو کیا ہو گیا تھا۔کہنے لگے کہ ہم غلطی پر تھے' ہم تاریکی میں تھے ہمیں آج اجالا نصیب ہواہے۔ یہ بات سن کر حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ   بولے روشنی تو ابھی بہت دور کی بات ہے لیکن اطمینان رکھو ایک روز وہ تمہارا مقدر بنے گی۔

حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ   فارسی اور ہندی شاعر کی حثیت سے بلند مقام رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ نثر میں بھی آپ کے کتابیں تحریر کیں ہیں۔انوار العیون آپ کی مشہور کتاب ہے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے صوفیاء کے دو مراتب کا ذکر کیا ہے۔مرتبۂ عروج ،مرتبۂ نزول

عروج وہ مرتبہ ہے جس میں روح اپنے اصل وطن کی طرف لوٹ جاتی ہے اور لذت وصال سے ہمکنار ہو کر ہجر و فراق کے مرتبہ کی طرف لوٹ آتی ہے۔ عرفاء کے نزدیک عروج کا درجہ نزول کے درجے سے کم ہے اس لئے کہ عروج تکمیل کا سفر ہے جبکہ نزول اپنے تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل کا متقاضی ہے اور یہ مرحلہ پہلے مرحلے کی نسبت آزمائش طلب، پرکٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ شیخ گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال تھا کہ وہ اس رفعتِ أَوْ أَدْنَى سے واپس لوٹ آئے۔  

شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے وہاں جانا نصیب ہوتا تو واپس آنے کا کبھی نام نہ لیتا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک تو مجھ میں اتنی روحانی توانائی نہ ہوتی کہ میں اپنی جسمانی اکائی کو برقرار رکھ سکتا۔ دوسرے اپنی ذات میں اس قدر مگن ہو جاتا اور خود غرضی مجھ پر اس قدر غالب آ جاتی کہ میں عالم انسانیت کو بھول کر صرف اپنا ہی ہو کر رہ جاتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت یہ ہے کہ وہ اتنی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد لوٹ آئے۔ شعور بندگی اور احساس بندگی ہر قدم پر دامن گیر رہا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں کی خلعت فاخرہ عطا ہونے کے بعد بھی اپنی ذات میں گم نہیں ہوئے بلکہ انہیں ہر لمحہ ہم گنہگاروں کی ہدایت اور اصلاح کا خیال رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی روحانی قوتوں کے مالک تھے کہ انوار و تجلیات کی مسلسل بارش میں اپنی ذات کی اکائی کو سلامت رکھنے میں کامیاب و کامران رہے اور واپس زمین کی طرف بھی لوٹ آئے کہ اس کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو اصنام پرستی کے تاریک غاروں سے نکال کر توحید پرستی کے حلقۂ انوار میں داخل کرنا تھا۔ یہ وہی زمین تھی جہاں پتھروں کی بارش میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرچم توحید اٹھائے رکھا۔ جہاں قدم قدم پر آپ کے خون کے پیاسے آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ شان رسالت یہی تھی کہ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس کی تائید و نصرت پر کامل یقین رکھتے ہوئے دلوں کے قفل توڑے جائیں اور ان کے سینوں کو توحید کے نور سے منور کیا جائے

          آپ ۳۰ جمادی الاخر ۹۴۵ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ  گنگوہ  ضلع سہارن پور انڈیا میں ہے۔